۲ آذر ۱۴۰۳ |۲۰ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 22, 2024
آیت اللہ حافظ ریاض نجفی

حوزہ/ وفاق المدارس الشیعہ پاکستان کے صدر نے خطبہ جمعہ میں کہا کہ اگر ملک میں سیرت رسول ہے تو یہ اسلامی ریاست، ورنہ دیوالیہ نکل جائے گا۔ کچھ لوگوں نے اسلام کی بجائے فرقہ واریت کو ہوا دینے کی خاطر من پسند نظریات مسلط کرنے کی ساش کی رسول اللہ کو ماننا واجب،ان کی تعلیمات پر عمل فرض ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،لاہور/ وفاق المدارس الشیعہ پاکستان کے صدر آیت اللہ حافظ ریاض حسین نجفی نے زور دیا ہے کہ ہماری سیاست اور تہذیب انسانی اور اسلامی ہونی چاہیے۔ سیاست کا مطلب ملک میں موجود تمام افراد کے لئے یکساں طور پر غذا، علم، صحت، گھر اور امن و امان کے لئے سوچ بچار کرتے ہوئے راستے نکالنا ہے۔ اصل اسلام سیرت رسول اکرم ہے، اسے ماننا ہوتا ہے۔ اگر ملک میں سیرت رسول ہے تو یہ اسلامی سیاست ہے ورنہ ایک دوسرے کو ڈاکو اور چو ر کہتے رہیں گے اور ملک کا دیوالیہ نکل جائے گا۔ عدلیہ کو چاہیے کہ وہ صحیح طور پر کام کرے اور یہ نہ ہو کہ آج کوئی فیصلہ دیا تو کل کوئی اور فیصلہ سنا دیا۔

انہوں نے زوردیا کہ تمام سیاست دان مل بیٹھ کر غور کریں کہ پاکستان کے لئے کیا چیز ضروری ہے اور کس سیاست سے پرہیز کرنا چاہیے؟ جب کوئی حاکم نیا نیااقتدار میں آتا ہے تو اچھے کام کرتا ہے لیکن پھر وہ بھی اسی ڈگر پر چلنا شروع کر دیتا ہے کہ جس پر وہ پہلے والے حکمران چل رہے تھے۔

جامع علی مسجد جامعتہ المنتظر میں خطبہ جمعہ دیتے ہوئے حافظ ریاض نجفی نے کہا پاکستان کی قابل فخر خوبی اس کا اسلام کے نام پر معرض وجود میں آنا ہے۔ لیکن لوگوں نے اسلام کی بجائے فرقہ واریت کو ہوا دینے کی خاطر اپنے من پسند نظریا ت کو مسلط کرنے کی دانستہ ساز ش کی اور کہنا شروع کر دیا کہ فلاں کو مانو ، فلاں کو مانو حالانکہ وہ اشخاص معصوم تو نہیں ہیں۔ البتہ رسول اللہ کو ماننا واجب اور ان کی تعلیمات پر عمل کرنا فرض ہے۔ اگر وہ کسی ہستی کو عظمت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں تو مسلمان کو چاہیے کہ وہ بھی اس ہستی کو اسی نظر سے دیکھیں۔

انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے ملت اسلامیہ کو دو بڑی نعمتیں ماہ مبارک رمضان اور محرم میں عزائے حسینی عطا فرمائیں۔ اگر مجالس میں شان ، فرمان اور ارمان اہل بیت ؑ بیان ہوتا ہے اور اللہ کی طرف بلایا جاتا ہے تو بہت اچھی اور اعلیٰ مجلس ہے۔ اگر فقط نعرے بازی ہو اور دعوت الی اللہ نہ ہوتو کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اسی طرح اگر مدارس میں قرآن کریم کا ترجمہ نہیں پڑھایا جاتا وہ کوئی سکول ہو سکتا ہے لیکن وہ مدرسہ، مدرسہ کہلانے کا استحقاق نہیں رکھتا۔ مدرسہ تو وہ ہوتا ہے جہاں قرآن کریم اور احادث کی تعلیم دی جاتی ہے۔ ما ہ مبارک میں دعوت الی اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق بندگان کی طرف بھی توجہ رہنی چاہیے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .